By Arshad Masood Hashmi
(This blog is the seventh in the series of blogs that JILS will publish in various vernacular languages as part of its initiative to mark the International Mother Language Day.)
پس منظر
حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ کے دوران مدینہ منورہ سے تھوڑے فاصلے پر مدینے کی پہلی مسجد (مسجد قبا) تعمیر کی گئی۔منافقین مدینے میں بھی موجود تھے۔ان میں سے ایک، ابو عامر، نے حضورﷺکی اجازت سے بستی سے قریب دوسری مسجد (مسجد ضرار) کی تعمیر کی اجازت چاہی تاکہ جو لوگ مسجد قبا تک جانے میں دقتیں محسوس کرتے تھے وہ اس میں نماز ادا کر سکیں۔لیکن درحقیقت، اس مسجد کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ وہاں آنے والوں کے دلوں کو شک و شبہات سے اس طرح بھر دیا جائے کہ وہ محمد ﷺسے بدظن ہونے لگیں، ان کی جماعتوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے، اور مسجد قبا میں مصلیوں کی تعداد کم ہو جائے۔آپ ﷺنے مسجد ضرار میں کبھی نماز ادا نہیں کی، گرچہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ تبوک سے واپسی پر وہاں جائیں گے۔ غزوۂ تبوک سے واپسی ہوئی تو مدینہ پہنچنے سے قبل سورہ توبہ کی آیتیں (107 سے 110)نازل ہوئیں جن میں آنحضورﷺ کواس مسجد میں جانے سے منع کیا گیا، اور اس کی تعمیر کا مقصد بھی بتا دیا گیا۔بعد ازاں،آپﷺکے حکم سے مسجدضرار منہدم کر دی گئی اور اسے آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ثابت ہوا کہ نفاق اور فتنہ و فساد اگر تعمیر مسجد کے اغراض و مقاصد میں شامل ہوں تو ایسی مسجدیں آباد نہ کی جائیں۔
یہ واقعہ 9 ہجری کا ہے۔ آج 1445 ہجری میں ہند و پاک ہی نہیں، دیگر ممالک میں بھی ایسی مسجدیں موجود ہیں جن کی تعمیر کا مقصد محض یہ ہے کہ وہ مخصوص فرقے والوں کے زیر استعمال ہوں، اور دوسرے فرقوں کے خلاف وہاں ریشہ دوانیاں کی جائیں۔بے شمار مساجد مسلمانوں کے ہی ذریعہ سب و شتم کا گہوارہ بنا دی گئی ہیں۔ متذکرہ تاریخی واقعہ کی روشنی میں آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی مذہبی شناخت کیسی ہوگی۔
مسئلہ
اس صورت حال میں ہی بابری مسجد کا قضیہ سامنے آیا۔مسجد ضرار سے بابری مسجد کی کوئی نسبت نہیں ہے، اور بابری مسجد کی تعمیر میں عصر رواں کے ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی عمل دخل بھی نہیں تھا۔ وہ مسجد جو بوجوہ ویران ہو چکی تھی، اگر ازسرنو آباد ہو بھی جاتی تو مسلمانوں کی آپسی خونریزیاں اس کے کردار کو مزید مجروح کر دیتیں۔ہمارے ملک عزیز کی مکمل معاشرت اور ہمارا عدلیہ ہماری حقیقتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ہم جب قبروں سے مردوں کو نکال کر پھینکنے میں تامل نہیں کرتے، ایک دوسرے کی امامت قبول نہیں کرتے تو ہم یہ باور کرنے میں حق بجانب نہیں کہ اس کے اثرات ہمارے مکمل نظام زندگی پر ظاہر نہ ہوں گے۔ہم اسے سازش کہیں یا اپنے اعمال کا نتیجہ، اس پر بحث کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔اس کا دوسرا پہلو ہے کہ وطن سے محبت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ملک کے قوانین کی پاسداری کی جائے، عدلیہ پر یقین کیا جائے۔اگر واقعی ایسا ہے تو عدالت عظمیٰ کے فیصلے ہم سے یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ شہری ہونے کے ناطے ہم انھیں قبول کریں، خواہ بسر و چشم، خواہ بادل ناخواستہ۔ مسجد کا زمین دوز کیا جانا ثقافتی اعتبار سے ایک سانحہ تو تھا، تاہم مذہبی تشخص کے مجروح ہونے کے باوجود مذہبی اعتبار سے یہ سانحہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ خود ہم نے اپنی مسجدوں کو نفرتوں کی آماجگاہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیکن اس کے ردعمل میں مسلم دشمنی کے طورپر جس طرح قتل عام کا بازار گرم ہوا وہ ہماری ثقافتی بوقلمونیوں پر بہت ہی کاری ضرب کی حیثیت رکھتا ہے۔اس پس منظر میں عدلیہ میں حساسیت اور غیر جانبداری کے عناصر کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔ اگر ایک معاملے میں کسی شخص یا تنظیم کے خلاف عدلیہ کے ذریعہ اس لیے کوئی حاکم صادر نہیں کیا جاتا کہ اس سے ماحول کے بگڑنے کا اندیشہ ہے، تو یہ حساسیت دیگر معاملوں میں بھی ہونی چاہیے۔ اعتقادات کو فیصلوں کی بنیاد بنانا بذات خود ایک غیر منصفانہ عمل ہے، لیکن اگر ایک فریق کو اس کا فائدہ پہنچائے جانے کی تدبیریں کی جا سکتی ہیں تو ظاہر ہے کی دوسرا فریق اسے انصاف نہیں بلکہ حق تلفی تصور کرے گا۔گذشتہ برسوں میں امروز فردا میں سبک دوش ہونے والے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے منصفوں کے ذریعہ چند ایسے فیصلے صادر کیے گئے جن سے عدلیہ کی کارگزاریوں پہ حرف آتا ہے۔ اس کے خلاف ردعمل ہونا بھی واجب ہے لیکن ایسے سد باب کی اشد ضرورت ہے جو عدلیہ کے مکمل نظام پر یقین و اعتماد کو قائم کرنے میں معاون ہو سکے۔
حکمت عملی
اب سوال یہ ہے کہ اس تشویشناک صورت حال میں مسلمانان ہند اپنے قومی اور مذہبی تشخص کے تحفظ کے لیے کیا کریں؟ معاشرے کے ایک طبقے اور سیاست دانوں کے لیے لقمۂ تر تو وہ ہیں ہی؛مقننہ اور عدلیہ میں بھی ان کے تئیں ایماندارانہ رویہ اپنائے جانے کی منصفانہ روش بھی کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود افضل اور بہتر یہ ہے کہ مسلمان کم از کم عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو قبول کریں کیونکہ ان کی مخالفت سے قومی تشخص مجروح کرنے کا جواز ہاتھ آجائے گا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ خود ہمارے درمیان جن گمراہیوں نے جڑیں مضبوط کر لی ہیں، انھیں دور کیے جانے کی سبیلیں اختیار کی جائیں تاکہ ہم بحیثیت امت بھی اپنی مضبوط شناخت قائم رکھ سکیں۔
عرصہ قبل ڈاکٹر مشیرالحق نے ہندوستان میں اسلامی عائلی قوانین پر عمل درآمد اور یکساں عائلی قوانین کے سلسلے میں حکومت کی منشا کے تعلق سے لکھا تھا کہ
”سیاسی مجبوریاں جب تک حکومت کو روکے ہوئی ہیں اس وقت تک ایک مشترکہ عائلی قانون نافذ نہیں ہوتا، لیکن جوں ہی حکومت نے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ، اس وقت اس کے سامنے ایسا کوئی عذر نہیں رہے گا جو اسے مشترکہ عائلی قانون کے نفاذ سے روک سکے۔“][1][
برسوں قبل جس اندیشے کا اظہار کیا گیا تھا، اس کی ابتدا ہو چکی ہے۔وقتاً فوقتاً ہندوستانی عدالتوں کے ذریعہ مسلم پرسنل لا سے متعلق فیصلے،شاہ بانو ، خلع، طلاق ثلاثہ، یکساں عائلی قانون، بعض مساجد سے حق دستبرداری سے محرومی کی تحریک ، اور ان سب میں پارلیمان و عدلیہ کی دلچسپی ایک تشویشناک صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔ان میں چند معاملات ایسے بھی ہیں جن کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں۔ ڈاکٹر مشیرالحق ”مذہب اور جدید ذہن“ میں اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عائلی قوانین میں شرعی نظام کی موجودگی کے باوجود ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت نے شرعی فیصلوں سے مطمئن نہیں ہونے کی وجہ سے عدالتوں سے رجوع کیا۔اس ضمن میں انھوں نے جسٹس کرشنا ایئر کے ایک پرانے لیکن اہم فیصلے کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ مسلم قانون ازدواج میں جو ایک ہلکی سی جدیدیت ہے ، اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔بلکہ اس قانون میں نمایاں نکات وہ بعینہ وہی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے قانون ازدواج یا ہندوستان کے اسپیشل میرج ایکٹ (نمبر 43، 1954) میں پائے جاتے ہیں۔][2] [اس کے باوجود اندرون خانہ ہی بے چینیاں سر ابھارنے لگیں تو شرعی قوانین کو ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ تاہم، یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ صدیوں سے دنیا میں مکمل طور پر خالص شریعت کا نفاذ متروک ہے۔
”مدتوں سے شریعت میں غیر شرعی قوانین کے پیوند لگ رہے ہیں، اور اسلامی نظام میں غیر اسلامی آئین پیوست کیا جارہا ہے لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد جب مصطفےٰ کمال نے ترکی میں خلافت عثمانیہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین کو بھی ختم کر کے وہاں پورے طور پر یورپی قوانین نافذ کر دیے تو صورت حال اس طرح کھل کر سامنے آ گئی کہ کسی تاویل کی گنجائش نہیں رہی۔“][3][
یہ صورت حال اب ترکی (ترکیہ) تک ہی محدود نہیں رہ گئی،معاصر تقاضوں کی آڑ میں سعودی عرب سے عرب امارات اور دیگر مسلم ممالک تک یہ تبدیلیاں نظر آنے لگی ہیں۔اس لحاظ سے شریعت ہی نہیں، اسلامی تشخص کی بقا بھی ایک مبہم تصور میں ڈھلتی جا رہی ہے۔بظاہر اس کے بے شمار اسباب ہیں۔پروفیسر محمد مجیب نے اظہار خیال کیا تھا کہ روشن ضمیر مسلمان گذشتہ ڈیرھ سو برسوں سے ملت اسلامیہ پر اثر انداز نہیں ہو سکے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ہر مسئلے کو فقہی بنا دیا ، یا بن جانے دیا۔چند بنیادی نکات کی جانب اشارے کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:
”دینی اور دنیاوی قدروں کی ہم آہنگی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم دنیاوی قدروں کو بالکل پس پشت ڈال دیں۔ہم طہارت کی تعلیم دیتے ہیں، لیکن جو بھی دہلی، آگرہ اور فتح پور سکری کی جامع مسجدوں کے آس پاس کی گندگی کو دیکھے گا اسے یقین ہو جائے گا کہ مسلمانوں کو صفائی کا مطلق خیال نہیں۔مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ آپس میں جنگ نہ کریں اور سب مل کر اللہ کی رسی کو پکڑے رہیں۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں صرف دینی اتحاد ہو یا کہ وہ ہر اچھے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں؟“][4][
اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر موصوف نے مدرسوں کے انتظامیہ سے وقف کے معاملات، اور اسرائیل سے فلسطین کے تحفظ جیسے دنیاوی امور کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ تعاون کا میلان مسلمانوں میں سب سے زیادہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے اسلام کی نامیاتی ساخت میں اجارہ داری کے عناصر نہیں ہیں۔ مختلف فرقوں کے درمیان عقائد اور رسوم و رواج میں موجود مسلکی اختلافات نے یقیناً اسلامی شعار کو ایک پیچیدگی عطا کر دی ہے ۔علاوہ ازیں، مختلف جغرافیائی اور تاریخی نیز علاقائی معاملات نے بھی اسے متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام یا امت مسلمہ کی صورت حال ہر جگہ ایک جیسی نہیں ہے۔مثال کے طور پر خود قرآن پاک کی تفاسیر سے بھی ان نزاعی حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایک معروف دانشور، اشعر نجمی، کا خیال ہے کہ
”قرآن کی تفسیریں کثرت سے موجود ہیں اور کثرت سے لکھی گئی ہیں۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی دو مفسر ایسے نہیں جن کی صوابدید ہر جگہ بالکل متحد ہو۔ ہر مفسر نے اپنی تفسیر اسی لئے لکھی کہ وہ متداول تفسیروں سے پوری طرح متفق نہ تھا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مفسروں میں بعض ایسے تھے جن کا ایمان راسخ نہ تھا ۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ چونکہ تعبیر میں ذاتی صوابدید آخری فیصلہ کرتی ہے اور قرآنی متن اپنی گہرائی ، کثیرالمعنویت، نزاکت اور ادبی حسن میں بے مثل و بے مثال ہے ، اس لیے وہ کثرت سے تعبیر کا تقاضہ کرتا ہے۔“][5][
مسئلے کی تفہیم کے لیے ایک فقہی اصطلاح ”نشوز“ پر غور کیا جاسکتا ہے۔عمومی طور پر اس سے مرادعورتوں کے ذریعہ مردوں (باپ، بھائی، شوہر) کی تابعداری و فرمانبرداری ہے۔ اس کے ہی سلسلے میں بیوی کو غلام سمجھنے جیسی تعبیرات پیش کی گئیں، اور اس کی بنیاد پر شوہروں کو بیویوں کی جسمانی تادیب کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ اس لفظ کے سلسلے میں امین احسن اصلاحی کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیں:
”نشوز کے معنی سر اٹھانے کے ہیں لیکن اس لفظ کا غالب استعمال اس سرتابی و سرکشی کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت کی طرف سے اس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو۔ اگر کسی عورت کے رویے سے ظاہر ہو کہ وہ سر کشی کی راہ پر چل پڑی ہے تو مرد چونکہ قوام ہے اس وجہ سے اس کو عورت کی تادیب کے لیے بعض تادیبی اختیارات دیے گئے ہیں۔ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ قرآن نے یہ اختیارات صرف اس صورت کے لیے دیے ہیں جب نشوز کا اندیشہ ہو ۔ … نشوز یہ ہے کہ عورت کوئی ایسا قدم اٹھاتی نظر آئے جو مرد کی قوامیت کو چیلنج کرنے والا اور جس سے گھر کی مملکت میں بدامنی و اختلال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوتی نظر آئے تو مرد تین صورتیں اختیار کر سکتا ہے اور قرآن کا انداز بیان دلیل ہے کہ ان تینوں میں ترتیب و تدریج ملحوظ ہے۔“ [6]
لیکن فقہا کے درمیان اس کا غالب استعمال بیوی کی نافرمانی ہی رہا ہے۔ وہ نافرمانی جنسی ضرورت کی تکمیل ہو، بیوی کی کسی دوسرے مرد کے تئیں رغبت، یا کسی بھی معاملے میں شوہر سے اختلاف رائے، ہر صورت میں اسے نشوز ہی کہا گیا۔ اور اسی پس منظر میں مرد کے قوام ہونے پہ اصرار کرتے ہوئے اسے نہ صرف بیوی کی جسمانی تادیب ، بلکہ اس سے کسی مشورے کے بغیر اسے طلاق دینے کی بنیاد بھی بنایا گیا۔ محمد رضی الاسلام ندوی یہ صراحت پیش کرتے ہیں کہ:
” قرآن نے یہ حکم اس صورت میں، جب دیگر تدابیر ناکام ہوجائیں، ناگزیر علاجی تدبیر کے طور پر دیا ہے۔ اس کا یہ حکم عام حالات میں اور عام عورتوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس مخصوص صورت حال کے لیے ہے جب عورت خود سر ہوجائے، مرد سے نفرت کرنے لگے، اس کا کہنا نہ مانے او راسے اپنے سے کم تر سمجھنے لگے۔ جن لوگوں کو قرآن کا یہ حکم عورت کی توہین وتذلیل معلوم ہوتا ہے انھیں عورت کے باغیانہ تیور او رخودسری پر مبنی رویّہ میں مرد کی تحقیر و تذلیل کا پہلو نظر نہیں آتا۔“[7]
تعبیر وتفسیر کے منہج پر سیاست و معاشرت کے ساتھ ہی جغرافیائی حالات بھی اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ درج بالا سطور میں ترکی میں جس تبدیلی کا ذکر کیا گیا، وہ اچانک نہیں ہوئی۔ اس کے لیے زمینیں خود فقہی نظام نے تیار کر رکھی تھیں۔ سلطنت عثمانیہ میں جنسی تعصبات پہ مبنی تفسیریں اور فتوے اتنی وسیع تعداد میں منظر عام پر آنے لگے تھے کہ ان کی وجہ سے اسلام کی اصل شناخت مجروح ہو گئی تھی۔ سیاسی اسلام کی قدآوری نے مذہبی اسلام کو اپنا اسیر بنا لیا اور اسلامیت یا اسلام سازی ایک ایسے رنگ میں ڈھل گئی کہ بنیادی تعلیمات پس پردہ رہ گئیں اور جنسی تعصبات سے پر تفسیریں یا فتوے اور شرعی قوانین ہی اسلام کی اصل شناخت بنا دیے گئے۔ اسی طرح دولت امویہ اور عباسیہ نے اسلام کے فروغ کے نام پر ایسے اسلام کی داغ بیل ڈال دی جس کی بنیاد جنسیت اور زن بیزاری پہ تھی اور ان ہی زمانوں سے اصل اسلام کی اخلاقیات، جو بنیادی طور پہ مساوات انسانی کا درس دیتی ہے، اور اس نئے اسلامی تفکر کے درمیان کشاکش قائم ہے ۔ سیاسی اسلام یا سرکاری اسلام نے اسلام کی اصل تعلیمات کو مسخ کرنے میں اپنی پوری قوت جھونک دی ۔ ان سب کا اثر ظاہر ہے کہ ہندستان پر بھی ہوتا رہا ہے۔
ملک عزیز میں اٹھارویں اورانیسویں صدی میں صورت حال برعکس تھی کہ جب علمائے کرام مصلحین کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ان کے سامنے ایک بڑا نصب العین تھا۔ روشن ضمیری اور روشن خیالی کی وہ نظیریں اب برائے نام ہیں۔مصلحت پسندی اختیار کرتے ہوئے رہنمائی کی جائے تو بہتر ہے لیکن اس میں تعصبات اور ذاتی یا اداراتی مفاد نہ ہوں۔
The author, Arshad Masood Hashmi, is a Professor in the Department of Urdu at the Jai Prakash University, Chapra, Bihar.
We would like to extend our special thanks and gratitude to Mohammad Usman Bhat, a second-year law student at the West Bengal National University of Juridical Sciences (NUJS), Kolkata, for assisting us with his reviews and inputs.
[[1]] مشیر الحق،مسلمان اور سیکولر ہندوستان، 141(پہلی اشاعت، 1973) ۔
[[2]] مشیرالحق، مذہب اور جدید ذہن، 76 (پہلی اشاعت، 2011) ۔
[[3]] عبدالسلام قدوائی ندوی ،اسلامی شریعت اور وقت کے تقاضے، 251مشمولہ فکر اسلامی کی تشکیل جدید (ضیاء الحسن فاروقی، مشیرالحق، پہلی اشاعت، 1978) ۔
[[4]] محمد مجیب، اچھے مسلمان کا تصور، 291 مشمولہ جامعہ (جلد 83 شمارہ 9-10، اکتوبر 1986) ۔
[[5]] اشعر نجمی، تفسیر کی شرح،8 مشمولہ اثبات کتابی سلسلہ (شمارہ 14 و 15، 2013) ۔
[[6] ]امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن (جلد دوم) ، 291 (پہلی اشاعت 1983) ۔
[[7] ]محمد رضی الاسلام ندوی،مرد کی قوامیت: مفہوم اور ذمہ داریاں۔ http://www.raziulislamnadvi.com/ آخری مرتبہ رجوع 1024/02/17